بنگلادیش: سول نافرمانی تحریک میں جھڑپیں، ہلاکتوں کی تعداد 300 ہوگئی

کرفیو والے علاقوں میں انٹرنیٹ بھی بند کردیا گیا اور ایک ہفتے میں کم ازکم 11 ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے: میڈیا رپورٹس

ڈھاکا: بنگلادیش میں کوٹہ سسٹم کے مخالف طلبہ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے بعد پرتشدد احتجاج میں ہلاکتوں کی تعداد 300 تک جا پہنچی ہے۔

عالمی خبر رساں اداروں  کے مطابق یہ تعداد پولیس، اہلکاروں اور ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی رپورٹوں پر مبنی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سول نافرمانی کی تحریک چلانے والے طلبہ نے وزیراعظم حسینہ واجد سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے اور کرفیو کے باوجود ڈھاکا کی جانب مارچ کا اعلان کیا ہے۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان تازہ جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں پولیس نے آنسو گیس اور دیگر ہلکے ہتھیاروں کا استعمال کیا جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔

رپورٹس کے مطابق اتوار کے روز دارالحکومت ڈھاکا اور شمالی اضلاع میں ہلاکتیں ہوئیں جب کہ پولیس حکام کا بتانا ہےکہ مظاہرین نے سراج گنج کے علاقے میں پولیس پر بھی حملہ کیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق کوٹہ سسٹم کے خلاف جولائی سے شروع ہونے والے احتجاج میں پرتشدد واقعات کے نتیجے میں اب تک سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ طلبہ نے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اور مظاہرین شیخ حسینہ واجد کے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق حکام نے کرفیو والے علاقوں میں انٹرنیٹ بھی بند کردیا ہے اور ایک ہفتے میں کم ازکم 11 ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

مظاہروں کا آغاز آج دوبارہ ہوگا جبکہ دارالحکومت ڈھاکہ میں فوجیوں اور پولیس کی بھاری نفری اہم سڑکوں پر گشت کر رہی ہے اور وزیراعظم شیخ حسینہ کے دفتر جانے والے راستوں پر بھی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔

گزشتہ روز بنگلہ دیش میں طلبہ گروپ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کردیا گیا تھا جس کے پہلے ہی روز پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 91 افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔

91 اموات بنگلہ دیش کی حالیہ تاریخ میں کسی بھی احتجاج یا مظاہرے کے دوران ایک دن میں ہونے والی سب سے زیادہ اموات ہیں جہاں اس سے قبل سب سے زیادہ حال ہی میں کوٹہ سسٹم کے خلاف ہونے والے احتجاج کے موقع پر ہوئی تھیں جب ایک ہی دن میں کم از کم 67 افراد جاں کی بازی ہار گئے تھے۔

وزیراعظم حسینہ واجد نے نیشنل سیکیورٹی پینل کے اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے طلبہ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں جو ملک کو غیرمستحکم کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں۔

4 اگست کو بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمیشن نے ملک میں جاری پرتشدد واقعات کے پیش نظر بنگلہ دیش کی زیر نگرانی پاکستانی طلبہ کو اپنے کمروں تک محدود رہنے اور موجودہ صورتحال سے خود کو الگ رکھنے کی ہدایت کی ہے۔

یاد رہے کہ چند روز قبل ہائی کورٹ کی جانب سے ’فریڈم فائٹرز‘ (جنہوں نے 1971ء کی جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا) کے بچوں اور پوتوں کا سرکاری نوکریوں میں کوٹہ بحال کیے جانے کے بعد بنگلہ دیش کے بہت سے نوجوان سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

16 جولائی کو سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران 6 طلبہ کی موت کے بعد بنگلہ دیش بھر میں سکولوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔

20 جولائی کو بنگلہ دیش میں کشیدہ حالات کے باعث وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا تھا، ملک میں کئی روز کے مظاہروں کے بعد فوج طلب کرلی گئی تھی، اس دوران ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل ہونے سے شہریوں کو معلومات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

BangladeshClashesCurfewInternet Service SuspendNon Coopration MovementPrime Minister Sheikh Hasina WajidStudents Protests
Comments (0)
Add Comment