افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہوگی: ذبیح اللہ مجاہد

61

وزیر دفاع خواجہ آصف کے دہشتگردوں کی جانب سے سرحد پار انتہاپسندی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال سے متعلق بیان پر رد عمل دیتے ہوئے طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ افغان عبوری حکومت نے دوحہ معاہدے پر پاکستان سے نہیں بلکہ امریکا کے ساتھ دستخط کیے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم نے امریکا کے ساتھ دوحہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور پاکستان ایک برادر اور مسلم ملک ہے اور عبوری حکومت نے پڑوسی ملک کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا۔

میزبان کی جانب سے وزیر دفاع خواجہ آصف کے الزامات کے بارے میں پوچھا گیا افغان طالبان دوحہ معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہے جو تین سال سے طے پائے تھے، جس کے چار حصے تھے۔

معاہدے کے ایک حصے میں کہا گیا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف کسی بھی بین الاقوامی دہشت گرد گروہ یا افراد کے ذریعے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنے کی ضمانت دیتا ہے۔

اس سے قبل خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان پاکستانی شہریوں کے قتل میں ملوث دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا۔

خواجہ آصف کی جانب سے یہ بیان پاک فوج کے ردعمل فوج کے بعد آیا جہاں پر مسلح افواج نے انتباہی انداز میں کہا تھا کہ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں پر تشویش ہے، اگر وہاں پر کارروائی نہ کی تو جوابی کارروائی از خود کر سکتے ہیں۔

خواجہ آصف نے ٹویٹ میں لکھا کہ افغانستان دوحہ معاہدے میں کیے گئے اپنے وعدوں پر قائم نہیں رہا۔ پاکستان گزشتہ پانچ دہائیوں سے تقریباً 60 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے جبکہ دہشت گردوں کو مبینہ طور پر پڑوسی ملک میں پناہ گاہوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ یہ صورتحال مزید جاری نہیں رہ سکتی۔ پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے گا، انشاء اللہ۔

دوسری طرف افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اگر پاکستانی حکومت ان کے ساتھ ثبوت شیئر کرتی ہے تو عبوری حکومت اقدامات کرے گی۔ گزشتہ کئی مہینوں میں دونوں فریقین نے کئی ملاقاتیں کی ہیں جہاں وزارت خارجہ نے خدشات کا اعادہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور امریکا نے وقتاً فوقتاً افغان طالبان سے کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو پاکستان پر حملوں کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔

واضح رہے کہ دو روز قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کوئٹہ گیریژن کا دورہ کیا تھا جس میں مسلح افواج نے افغانستان میں کالعدم دہشت گرد گروپ ٹی ٹی پی کو دستیاب محفوظ پناہ گاہوں اور کارروائی کی آزادی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کی شمولیت ایک اور اہم تشویش ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے حملے ناقابل برداشت ہیں اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز موثر جواب دیں گے۔

وزیر دفاع اور فوج کا یہ بیان 12 جولائی کو بلوچستان میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف دو دہشت گردانہ حملوں کے رد عمل میں تھا جس میں 12 جوان شہید ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ ماضی میں حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے افغان طالبان کے نظریاتی جڑواں گروہ – کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ لیکن وہ کالعدم گروپ کے غیر آئینی مطالبات کی وجہ سے ختم ہو گئے۔

افغان طالبان کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے نمائندے خیبر پختونخوا کے شمالی وزیرستان سے مذاکرات کے لیے آئے تھے۔ لیکن مذاکرات بے نتیجہ ہو چکے ہیں اور مذاکرات کی ثالثی بھی ختم ہو گئی ہے-

Leave A Reply

Your email address will not be published.