اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک نے کہا کہ فروری میں عالمی خوراک کی قیمتیں ریکارڈ بلند سطح پر پہنچ گئیں جس میں ویجیٹیبل آئل اور دودھ سے بنی مصنوعات کی قیمتوں میں سالانہ بنیاد پر 20.7 فیصد اضافہ ہوا۔
ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر زیادہ تر تجارتی اشیائے خورو نوش پر نظر رکھنے والے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کا فوڈ پرائس انڈیکس گزشتہ ماہ اوسطاً 140.7 پوائنٹس تھا جو جنوری میں 135.4 اور اس سے قبل 135.7 پر تھا۔
اشیائے خورو نوش کی بلند قیمتوں نے ایسے وقت میں مہنگائی میں بڑے پیمانے پر اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے جب معیشتیں کورونا وبا کے بحران سے سنبھل رہی ہیں اور ایف اے او نے متنبہ کیا ہے کہ درآمدات پر انحصار کرنے والے ممالک میں بلند قیمتیں غریب آبادی کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
ایف اے او کے ماہر اقتصادیات اپالی گالکیتی اراچلیگ نے کہا کہ فصلوں کے حالات اور برآمدات کی دستیابی پر تشویش نے خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافے کی صرف ایک جزوی وضاحت فراہم کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خوراک کی قیمتوں میں افراط زر کے لیے ایک بہت بڑا اضافہ خوراک کی بیرونی پیداوار، خاص طور پر توانائی، کھاد اور خوراک کے شعبوں سے آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام عوامل خوراک پیدا کرنے والوں کے منافع کے مارجن کو نچوڑلیتے ہیں اور ان کی سرمایہ کاری اور پیداوار کو بڑھانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔
فروری کی رپورٹ کے لیے زیادہ تر ڈیٹا یوکرین پر روسی حملے سے پہلے مرتب کیا گیا۔
جنگ کے شعلے بھڑکنے سے پہلے ہی بحیرہ اسود کے علاقے میں کشیدگی کے خدشات زرعی منڈیوں پر پڑ رہے تھے لیکن تجزیہ کار خبردار کررہے ہیں کہ تنازع طویل مدت تک جاری رہا تو اناج کی برآمدات پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔