پی آئی اے کتنے کھربوں کے اثاثوں کی مالک؟ جان کر آپ کے ہوش اڑ جائیں گے
پی آئی اے کے مخدوش مستقبل کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبریں دراصل پی آئی اے کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوششیں ہیں، یہ خبریں اور افواہیں وہ عناصر پھیلا رہے ہیں جن کو ملک اور اس کے اداروں سے کوئی لگاؤ نہیں ہے وہ صرف اپنے مخصوص مقاصد کے لئے اہم قومی ادارے کے مستقبل کے متعلق غیر مصدقہ گفتگو سے اس کو نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔
پی آئی اے کے باخبر ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ پی آئی اے کی بندش کی خبریں وہ عناصر پھیلا رہے ہیں جو اس اہم قومی ادارے کی اونے پونے داموں فروخت چاہتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی مالی مشکلات میں بہتری کے بعد طیاروں کے لئے ضروری پرزہ جات کی فراہمی ممکن ہو گئی ہے ۔ گراؤنڈ کئے گئے طیاروں کی واپس فضائی بیڑے میں شمولیت سے پروازوں کے شیڈول میں بہتری ہوئی ہے اور پی آئی اے کے روزانہ کے ریونیو میں بھی بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ پی آئی اے نے موسم سرما کے لئے پروازوں کا شیڈول بھی فائنل کر لیا ہے جو کہ اکتوبر سے مارچ تک نافذ العمل رہے گا۔
قومی ائر لائن کے واقفان حال کہتے ہیں کہ تاریخی اہمیت کی حامل ائر لائن دنیا بھر میں وسیع نیٹ ورک رکھنے کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے اثاثے بھی موجود ہیں۔ نیویارک کا روز ویلٹ ہوٹل، پیرس میں سکرائب ہوٹل، نیویارک، ایمسٹرڈیم، تہران، ممبئی، تاشقند جیسے بین الاقوامی شہروں میں اربوں روپے کے اثاثے ہیں جبکہ پاکستان بھر میں پی آئی اے کے دفاتر بھی اربوں روپے مالیت کے ہیں۔
ائر لائن ذرائع کا کہنا ہے کہ جو لوگ پی آئی اے کے قرضہ جات کا ذکر کرتے ہیں لیکن ان کو پی آئی اے کے اثاثہ جات سے تین گنا کم کہتے ہیں یہی وہ عناصر ہیں جو پی آئی اے کی اونے پونے داموں فروخت چاہتے ہیں۔
ایوی ایشن کی دنیا میں سب سے اہم اثاثے کسی بھی ائر لائن کے روٹس اور لینڈنگ کے وہ اجازت نامے ہوتے ہیں جو ایک طویل جدوجہد کے بعد حاصل ہوتے ہیں مختلف ممالک میں طیاروں کے اترنے کے لیے لینڈنگ سلاٹس ائر لائن کے ریونیو میں بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور پی آئی اے دنیا کے اہم ممالک کے مصروف ترین ایئرپورٹس پر ان بنیادی اجازت ناموں کی حامل ائرلائن ہے جن کی ایک بہت بڑی ویلیو ہے۔
پی آئی اے کے اثاثہ جات کا اس کے قرضوں سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو بلا مبالغہ اس وقت اس کے قرضوں سے کم ہرگز نہیں ہیں اور اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ پی آئی اے بینک کرپٹ ہو چکی تو یہ غلط بات ہو گی۔ اگر صرف پی آئی اے کا نیویارک کا روز ویلٹ ہوٹل مارکیٹ کی قیمت پر فروخت کر دیا جائے تو پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں کئی مزید طیارے باآسانی شامل کئے جاسکتے ہیں اور اس کے کیش فلو میں بھی بہتری آسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے پی آئی اے کے اس قیمتی اثاثے کو سیاست کی نذر کر دیا جاتا ہے اور اب جب پی آئی اے کو ادائیگیوں میں توازن پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے تو صرف پی آئی اے کا یہ ایک اثاثہ ہی موجودہ ضرورت باآسانی پوری کر سکتا ہے۔
ایوی ایشن کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ جس ملک کی قومی ائر لائن سے سالانہ ساٹھ لاکھ سے زائد مسافر سفر کرتے ہوں اور جس ملک کی آبادی کے ایک کروڑ سے زائد لوگ غیر ممالک میں مقیم ہوں اور وہ وطن واپسی کے لئے ہر برس براہ راست سفر کو ترجیح دیتے ہوں ایسی خوش قسمت ائر لائن دنیا میں پی آئی اے کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ حج ، عمرہ کے مسافر اس کے علاوہ ہیں۔
ایک انٹرویو میں دنیا کی بڑی ائر لائن ورجن اٹلانٹک ائر لائن کے سی ای او رچرڈ بینسن سے سوال کیا گیا کہ وہ دنیا کی کون سی ائر لائن خریدنا چاہیں گے تو ان کا جواب پی آئی اے تھا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ جس ائر لائن کے پاس اتنی بڑی تعداد میں مسافر اور دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں پر سلاٹس ہوں اس کو منافع کمانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
پھر کیا وجہ ہوئی کہ پی آئی اے زبوں حالی کا شکار ہے اس میں سب سے بڑا عمل بروقت جدید طیاروں کی شمولیت کا نہ ہونا ہے۔ وقت کی ضرورت کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے، پی آئی اے کو دوبارہ سے اٹھایا جا سکتا ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ایوی ایشن کے جدید رجحانات اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پی آئی اے کی بحالی اور تنظیم نو کے فیصلے ہنگامی بنیادوں پر کئے جائیں۔
پہلے مرحلے میں حکومت پاکستان پی آئی اے کے قرضہ جات کی ری سٹرکچنگ کی ذمہ داری اٹھائے اور پی آئی اے کے بیرون ملک اثاثے فروخت کر کے اس کے قرضہ جات میں کمی اور نئے طیاروں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔
ایوی ایشن ماہرین کہتے ہیں کہ آج بھی پی آئی اے بیس طیاروں کے محدود فضائی بیڑے کے ساتھ ماہانہ 20 ارب روپے سے زائد کا ریونیو حاصل کر رہی اور جب مستقبل قریب میں یورپ ، برطانیہ اور امریکہ کی پروازوں پر بندش ختم ہو جائے گی تو یہ ریونیو ماہانہ 25 ارب سے زائد ہونے کی توقع ہے۔ اتنے بڑے سالانہ ریونیو کے ساتھ پی آئی اے کا فضائی آپریشن خسارے سے نکل جائے گا۔