پاکستان میں خواتین کو شعبہ صحت میں لیڈرشپ پوزیشنز پر لانے کیلئے رائل کالج آف فزیشنز برطانیہ کے زیر اہتمام تربیتی پروگرام کا آغاز
لاہور : پاکستان میں خواتین ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز کو ان کے اداروں میں لیڈرشپ پوزیشنز پر لانے کیلئے رائل کالج آف فزیشنز برطانیہ نے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کے اشتراک سے ویمن لیڈرشپ ان ہیلتھ کیئر پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ اس حوالے سے اتوار کے روز یو ایچ ایس میں خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت ڈاکٹر نوشین حامد اور اہلیہ گورنر پنجاب بیگم پروین سرور نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ یہ پروگرام دراصل کالج آف فزیشنز برطانیہ کے گلوبل ویمن لیڈرز پروگرام کا حصہ ہے جس کے تحت صحت کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین ڈاکٹرز اور ورکرز کو اپنے پیشے میں ترقی اور اداروں میں اہم پوزیشنز حاصل کرنے کے حوالے سے تربیتی سرٹیفکیٹ کورسز کروائے جائیں گے۔ تقریب سے اپنے خطاب میں ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا کہ خواتین کو لیڈرشپ پوزیشنز پر لانے کیلئے انھیں ضروری مہارتیں سکھانا ہوں گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ صنفی مساوات کے لحاظ پاکستان کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ جب بھی آٹھ مارچ قریب آتی ہے تو ہم لوگ مختلف موضوعات پر بات کرتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا کہ قائد اعظم نے فرمایا کہ دنیا میں دو طاقتیں ہیں ایک قلم اور ایک تلوار، لیکن عورت کی طاقت ان سے بھی بڑی ہے کیونکہ وہ تلوار اور قلم کا صحیح استعمال سکھاتی ہے۔ جب تک خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نہ چلیں کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ وفاقی پارلیمانی سیکرٹری نے کہاکہ ہمارے معاشرے میں جینڈر بیسڈ وائلنس کے بہت سے واقعات ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں لیڈر شپ پوزیشنز میں مزید خواتین چاہئیں۔ جب سے میں پارلیمنٹ میں ہوں تب سے میں نے کسی بھی مرد ممبر کو خواتین سے متعلق بات کرتے نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا کہ 8 مارچ کو نیشنل جینڈر پالیسی لے کر آرہے ہیں جس سے صنفی امتیاز ختم ہوگا۔ بیگم پروین سرور نے کہا کہ خواتین اپنے کام کو زیادہ سنجیدگی اور جذبے کے ساتھ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں تعینات لیڈی ڈاکٹرز کو تربیت کی ضرورت ہے۔ مزید برآں خواتین کیلئے کام کی جگہ کو محفوظ بنانا اور وہاں ڈے کیئر سینٹر فراہم کرنا ضروری ہے۔ بیگم پروین سرور نے زور دی کہ خواتین ڈاکٹرز کو پریکٹس میں واپس لانے کیلئے ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے۔ اس موقع پر رائل کالج آف فزیشنز لندن کی عالمی نائب صدر ڈاکٹر ممتاز پٹیل نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ صحت کے شعبے میں خواتین کو لیڈرشپ پوزیشنز پر لانے کے لیے پائیلٹ پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز پٹیل کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں صحت کے اداروں میں اعلی پوزیشنز پر صنفی عدم مساوات پائی جاتی ہے۔ دنیا میں خواتین ہیلتھ ورکرز کی تعداد 70 فیصد ہے لیکن پسماندہ ممالک میں صحت عامہ کے اداروں میں سینئر پوزیشنز پر موجود خواتین کی تعداد 5 فیصد سے بھی کم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ تعداد پچیس فیصد کے قریب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز کو آگے لانے کیلئے ان کی تربیت ضروری ہے۔ پروفیسر جاوید اکرم نے کہا کہ ملک کے میڈیکل کالجوں میں داخل ہونے والے طلبہ میں 70 فیصد سے زائد لڑکیاں ہوتی ہیں لیکن ان لڑکیوں میں سے صرف 23 فیصد ہی پریکٹس کرتی ہیں۔ جو خواتین پریکٹس نہیں کرتیں ان کی بڑی تعداد پریکٹس کرنا چاہتی ہے تاہم گھریلو ذمہ داریاں اور مجبوریاں آڑے آتی ہیں۔ پروفیسر جاوید اکرم نے کہا کہ خواتین کو پروفیشن میں لانے کیلئے اداروں کو ان کیلئے سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔ انہوں نے تجویز دی کہ صحت کے شعبے میں خواتین کو لیڈرشپ پوزیشنز پر لانے کیلئے ٹاسک فورس بننی چاہئے۔ بیگم پروین سرور اور ڈاکٹر نوشین حامد اس ٹاسک فورس کی سرپرستی کریں۔ پروفیسر جاوید اکرم نے مزید کہا کہ خواتین کے لیے پارٹ ٹائم پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ پروگرام متعارف کرانا ہوں گے۔ یونیورسٹی خواتین کیلئے پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ منجمد کرانے کی سہولت فراہم کرنے کیلئے قوانین میں تبدیلی کریگی۔ تقریب میں پروفیسر آفتاب محسن، پروفیسر اکبر چودھری، پروفیسر شاہدہ شیخ، پروفیسر طلعت ناہید، پاکستان میں پروگرام کی فوکل پرسن اور سیکرٹری جنرل پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن ڈاکٹر صومیہ اقتدار، ڈاکٹر ہارون حفیظ سمیت سینیئر ڈاکٹرز نے شرکت کی جبکہ پروفیسر لبنیٰ کمانی، پروفیسر خالدہ سومرو، ڈاکٹر میمونہ رشید، پروفیسر شبین ناز، ڈاکٹر مسعود جاوید، ڈاکٹر آمنہ معظم سمیت آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فلسطین، برطانیہ اور پاکستان سے خواتین ماہرین صحت نے آن لائن شرکت کی۔